فقہی اختلاف - اسباب
وآداب -(قسط دوم)
از - ڈاکٹر مولانا محمد صدر الحسن ندوی مدنی
فقہی اختلاف کا میدان :
علماء کی علمی کاوشوں کے
نتیجہ میں شریعت کے غیر منصوص شعبے میں فقہی اجتہادات کا قابل قدر اور وقیع ذخیرہ
وجود میں آیا جو امت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ ہے اور جس پر بجا طور پر ہمیں فخر ہے،
غیر منصوص سے مراد قرآن وسنت کےوہ احکام ہیں جن کا تعلق فقہاء کے استنباط اور
اجتہاد سے ہے- مثلا حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ من تشبه بقوم
فهو منهم (33) حدیث شریف میں تشبہ کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں، اس طرح قرآن پاک
میں ارشاد ربانی ہے : أحل الله البيع (34) یعنی تجارت کو اللہ تعالی نے حلال قرار
دیا ، لیکن تجارت کی مختلف صورتیں بیان نہیں کی گئی ہیں، اسی طرح ایسے ہزاروں
مسائل ہیں جن کی تفصیلات قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہیں یا ایسے مسائل جن کے بارے
میں قرآن وحدیث میں دونوں قسم کے دلائل ملتے ہیں، ان مسائل میں نسخ، وجود ترجیح یا
دوسرے دلائل کے ذریعہ اختلاف کا ظہور فطری امر ہے یا وہ مسائل جن کے متعلق قرآن
وحدیث میں سرے سے کوئی نص موجود نہیں ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے
ہیں :
"ایسے
اختلافی مسائل جن میں صحابہ کے اقوال ہر پہلو کی تائید میں ملتے ہیں مثلا عیدین
وتشریق کی تکبیریں، محرم کا نکاح کرنے کا حکم، یا تشہد کے کلمات جو ابن مسعود اور
ابن عباس کی طرف منسوب ہیں یا آمین یا بسم اللہ کو آہستہ یا زور دے کہنا یا نماز
کی اقامت میں بجائے دو دفعہ کے ایک ایک دفعہ اقامت کے کلمات کو ادا کرنا یہ اور اس
قسم کی ساری باتوں میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی صورت یہ سمجھی
جائے کہ شریعت کے مطابق ہے اور اس کی مخالف شکل غیر شرعی شکل ہے بلکہ سلف کا
اختلاف اگر تھا بھی تو اس میں تھا کہ ان دو مختلف صورتوں میں اولی اور بہتر شکل
کیا ہے ورنہ دونوں شکلوں کو شرعی قراردینے پر سب ہی متفق تھے"۔(35)
امام ابوبکر الجصاص اپنی کتاب احکام القرآن میں تحریر فرماتے
ہیں "ان حدیثوں کی بنیاد پر مسائل کی جتنی شکلیں پیدا ہوتی ہیں ، مسلمانوں کو
اختیار دیا گیا ہے کہ ان میں سے جس صورت کو اختیار کرنا چاہیں اختیار کرلیں، فقہاء
اور ائمہ میں یہ اختلاف صرف اس میں ہے کہ ان صورتوں میں افضل اور اولی صورت کیا
ہے"۔ (36)
قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے :
اس آیت میں قرء سے کیا مراد ہے اس کو کتاب اللہ نے بیان نہیں
کیا ، اس لیے اس کی تعیین میں صحابہ کرام اور فقہاء امت میں دو رائیں ہوگئیں، حضرت
عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے مطابق اس
سے مراد حیض ہے، جبکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت امام شافعی ؒ کے
بقول اس سے مراد طہر ہے۔
ایک اصولی حقیقت :
جن حضرات کی نظر کتاب وسنت، مقاصد شریعت اور شریعت اسلامیہ کی
عمومی روح پر ہے وہ اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ اصولی مسائل اور اصول دین میں
کسی بھی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح وہ اس بات پر بھی غیر متزلزل
یقین رکھتے ہیں کہ تمام فقہی اختلافات کا تعلق ان فروعی مسائل سے ہے جن میں ایک سے
زیادہ آراء کی گنجائش تھی، اسی طرح وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ فقہاء امت نے
نہایت دیانت وامانت کے ساتھ استنباط واجتہاد کے ذریعہ ان کو شریعت اسلامیہ کے
مسائل سے روشناس کرایا اور وہ لوگ اس عمل میں نہایت مخلص، راست باز اور محتاط تھے
اور انھوں نے قرآن وسنت کو عمل اجتہاد واستنباط کے کسی بھی مرحلہ میں نظر انداز
نہیں کیا بلکہ کتاب وسنت کو ہی اساسی حیثیت دے کر پیش آمدہ مسائل میں امت کے
رہنمائی کا مشکل اور نازک فریضہ انجام دیا۔
یحیی بن فرس سے بیہقی نے روایت کی ہے کہ وہ حضرت سفیان کی
مجلس میں تھے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ حضرت امام ابوحنیفہ پر
تنقیدیں کرتے ہیں حالانکہ بات ایسی نہیں ہے ، میں نے خود ان کو فرماتے ہوئے سنا ہے
کہ میں کتاب اللہ سے استدلال کرتا ہوں اگر اس میں موجود نہ ہوتو سنت رسول سے
استدلال کرتا ہوں، اگر سنت رسول میں موجود نہ ہوتو صحابہ کرام کے قول سے استدلال
کرتا ہوں، اور ان میں سےجس کے قول کو چاہتا ہوں اختیار کرتا ہوں اور جس کے قول کو
چاہتا ہوں چھوڑدیتا ہوں لیکن ان کے قول سے خروج نہیں کرتا اور ان کے مقابلے میں
غیر صحابہ کے قول کو اختیار نہیں کرتا لیکن اگر اس معاملہ میں ابراہیم،ابن سیرین،
شعبی ، حسن، عطا ابن مسیب اور دوسرے علماء کا قول موجود ہوتو میں ان کے قول کو
لیتا نہیں بلکہ اجتہاد کرتا ہوں جس طرح ان لوگوں نے اجتہاد کیا۔(38)
امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر فقہائے
کرام کا مسلک ونہج بھی حضرت امام ابوحنیفہ طرح رہا ہے کہ سب اس مسئلہ کا حکم کتاب
اللہ میں تلاش کرتے اگر اس میں نہ پائے تو سنت رسول میں اس کا حکم تلاش کرتے ، اس
کے بعد ہی دوسرے دلائل کی طرف توجہ دیتے اس لیے فقہی اختلاف میں کتاب وسنت کو نظر
انداز کرنے کا جو الزام فقہائے امت پر بعض حلقوں کی طرف سے لگایا جاتا ہے وہ بے
حقیقت ہے اس کی کوئی اساس نہیں ہے اور یہ ان فقہائے امت کے اصول استنباط واجتہاد
سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو گونا گوں صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اس
کے اندر تعقل وتفکر اور حالات وواقعات سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت ودیعت فرمائی
ہے اور شریعت نے بھی انسان کو اسی کا ملف بنایا ہے اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ فقہاء
اسلام کی مختلف آراء دراصل دلائل کی روشنی میں شریعت محمدیہ کی توضیح وتشریح ہیں۔
اس لیے یہ اختلاف حق وباطل کا اختلاف نہیں ہے بلکہ حزم واحتیاط کے ساتھ فہم
واستنباط کا اختلاف ہے۔
غزوہ احزاب کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کی ایک
جماعت کو بنوقریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ عصر کی نماز بنوقریظہ
میں ادا کریں، یہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، چند صحابہ
کرام نے وقت پر عصر کی نماز پڑھ لی اور اس کی توجیہ یہ کی کہ حضور اکرم ﷺ کا مقصد
یہ تھا کہ ہم بنوقریظہ پہنچنے میں جلدی کریں، حضور کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہم نماز
عصر کی ادائیگی میں تاخیر کریں، لیکن بعض صحابہ کرام نے عصر کی نماز راستے میں
نہیں پڑھی بلکہ بنوقریظہ پہنچنے کے بعد رات میں نماز ادا کی، ان حضرات کی توجیہ یہ
تھی کہ حضور اکرم ﷺ نے بنوقریظہ میں ہی ادا کرنا ضروری ہے، جب حضور اکرم ﷺ کو اس
اختلاف کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے دونوں جماعتوں میں سے کسی بھی جماعت کی تغلیط
نہیں فرمائی۔(39)
حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں دو صحابی سفر میں تھے، جب
نماز کا وقت آیا تو پانی میسر نہ تھا ، اس لیے دونوں حضرات نے نماز کے لیے تیمم
فرمایا اور نماز ادا کرلی لیکن ہوا یہ کہ ابھی نماز کا وقت باقی ہی تھا کہ پانی
میسر آگیا، ان میں سے ایک صحابی نے وضو کرکے اپنی نماز دہرالی اور دوسرے صحابی نے
نماز نہیں دہرائی، جب دونوں حضرات نے حضور ﷺ کے سامنے اپنے حالات بیان کیے تو آپ ﷺ
نے دونوں کی تصویب فرمائی یعنی دونوں کو صحیح قرار دیا، جنھوں نے نماز نہیں دہرائی
تھی ان سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے سنت کے مطابق عمل کیا اور تمہارے لیے وہ نماز
کافی ہے اور جن صحابی نے نماز دہرائی تھی ان سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں دگنا اجر
ملے گا۔(40)
فقہی اختلاف کے اسباب :
فقہی اختلاف کے بنیادی اسباب کا جہاں تک تعلق ہے دور نبوی ﷺ ،
دور صحابہ ، دور تابعین اور بعد کے ادوار میں فقہی اختلاف پر غور کرنے سے جو حقائق
ہمارے سامنے آتے ہیں ان حقائق کی روشنی میں فقہاء کے اختلاف کے درج ذیل اسباب
متعین ہوتے ہیں ۔
الف -اختلاف
بہ سبب فہم نصوص
ب- اختلاف بہ سبب نوعیت نصوص
ج-اختلاف
بہ سبب عدم نصوص
بہ ظاہر یہ اسباب تعداد کے اعتبار سے صرف تین ہیں، لیکن ان
تینوں اسباب پر اگر مفصل بحث کی جائے تو ہزاروں صفحات بھی اس کے لیے ناکافی ہونگے،
کیونکہ ان اسباب کے تحت سیکڑوں ضمنی اسباب ہیں جو اصول وقواعد کی بنیاد پر فقہاء
امت کے درمیان علمی وفقہی اختلافات کا سبب بنے، وقت محدود ہے اور موضوع کا سلسلہ
لامتناہی ہے لیکن مالا يدرك كله لا يترك كله کے قاعدے کے تحت ان تینوں اسباب کا
مختصر مگر تشفی بخش جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ان کی علمی توجیہ کے زریعے قدیم
وجدید اذہان میں فقہ، اصول فقہ اور فقہی اختلافات کے سلسلے میں جو شکوک وشبہات ہیں
دور ہوجائیں۔
الف- اختلاف بہ سبب فہم نصوص :
اصولی طور پر نص کا اطلاق قرآن وسنت پر ہوتا ہے اور قرآن
وحدیث ہی شریعت کے بنیادی مصادر ہیں، صحابہ کرام قرآن وحدیث کے اولین مخاطب اور
صدق وصفا کے پیکر اور مجسم عادل وضابط تھے، اللہ تعالی نے قرآن وحدیث کے فہم کا
حصہ وافر ان کو عطا فرمایا تھا اور حجۃ الوداع کے موقع پر خاتم النبیین ﷺ نے شریعت
اسلامیہ کے بنیادی مصادر قرآن وحدیث کو کائنا ت کے انسانوں تک پہنچانے کا عہد لیا
تھا ، اس لیے وہ قرآن پاک اور حدیث رسول ﷺ میں غوروفکر کرتے تھے اور غوروفکر کے
نتیجے میں جو مسائل مستنبط کرتے ان کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کا مقدس فریضہ انجام
دیتے تھے، نصوص میں غوروفکر کے نتیجے میں دو نبوی ہی سے صحابہ کرام میں فہم کا
اختلاف ظہور پذیر ہونے لگا تھا، اور ان کے نتائج اس وقت ظاہر ہوئے جب عصر عباسی
میں باقاعدہ تدوین فقہ کی ابتدا ہوئی، دور صحابہ میں ہی دو مکاتب فکر کی واضح
علامتیں لوگ محسوس کررہے تھے، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن
عباس اور حضرت عمر و حضرت عثمان کے طرز فکر وفہم سے حجازی مکتب فکر وجود میں آیا
جس کی سربرہای حضرت امام مالک ؒ کے حصہ میں آئی، اور حضرت علی، حضرت عبداللہ بن
مسعود اور ان کے تلامذہ قاضی شریح، علقمہ، ابراہیم نخعی اور حماد کے فتاوی کے
نتیجے میں دوسرا مکتب فکر وجود میں آیا جسے ہم عراقی مکتب فکر سے تعبیر کرسکتے
ہیں، اس مکتب فکر کی امامت حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے حصے میں آئی۔
علامہ ابن حزم نے اپنی کتاب الاحکام میں ان صحابہ کرام کا
تفصیلی تذکرہ کیا ہے جوحضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی اپنے فتاوی کے ذریعے
لوگوں کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوبکر،
حضرت عمر، حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبداللہ بن عباس،
حضرت عمار بن یاسر ، حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابودرداء، حضرت
ابوموسی اشعری، حضر سلمان فارسی، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت ابی بن کعب، ام
المومنین حضرت عائشہ، ام المومنین حضر ام سلمہ، حضرت انس بن مالک، حضرت ابوسعید
خدری، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت
سعد بن ابی وقاص، حضرت جابر بن عداللہ ، حضرت طلحۃ، حضرت زبیر، حضرت عمر ابن حصین،
حضرت ابوبکر، حضرت عبادہ بن الصامت اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین
–(41)
دور صحابہ میں فہم نصوص میں اختلاف کی مثالیں کتابوں میں
موجود ہیں مثال کے طور پر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوۃ سے جنگ کا
ارادہ فرمایا تو حضرت عمر نے حدیث نبوی کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو ان کے عمل یعنی
قتال سے روکنا چاہا اور حضرت ابوبکر کے سامنے حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث پیش فرمائی :
أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولو لا اله إلا الله فإذا قالوها
فقد عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها (42)
مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ
لا الہ الا اللہ نہ پڑھیں بس جب وہ کلمہ پڑھ لیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال
محفوظ کرلیں گے مگر اس کے حق سے۔
اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ کے نزدیک الا بحقھا کے ذریعے
جو استثناء کیا گیا ہے اس سے مراد ارتداد ، قتل ناحق اور زنا بعد الاحصان ہے، اس
لیے حضرت عمر نے عرض کیا کہ منع زکوۃ استثناء میں داخل نہیں ہے تو پھر ان مانعین
زکوۃ سے قتال کیونکر جائز ہوگا، حضرت ابوبکر رضی اللہ نے حضرت عمر کے فہم نص سے
اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ زکوۃ کا تعلق بھی الا بحقہا سے ہے اور فرمایا کہ خدا
کی قسم اگر وہ حضور ﷺ کے زمانے میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوۃ میں دیتے تھے اور اب
اس کاوہ انکار کرتے ہیں تو میں ان سے جنگ کرونگا۔
دور صحابہ میں اس بات میں اختلاف تھا کہ وجوب غسل کا سبب
انزال ہے یا صرف ہم بستری، صحابہ کرام کی ایک جماعت کا خیال تھا کہ صرف ہم بستری
وجوب غسل کا سبب نہیں ہے بلکہ انزال شرط ہے، جبکہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت علی
رضی اللہ عنہم اس بات کے قائل تھے کہ صرف ہم بستری ہی وجوب غسل کے لیے کافی ہے
انزال شرط نہیں ہے، فریق اول کا استدلال :
(43)انما الماء من الماء
(44)اور فریق ثانی نے :إذا التقى الختانان سے استدلال کیا
اسی طرح صحابہ کرام سے"
وضوء ممامسته النار میں
اختلاف منقول ہے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت ابی بن
کعب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت
ابودرداء اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہم اس بات کے قائل تھے کہ "ممامسته
النار " موجب وضو نہیں ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت زید بن ثابت، حضرت
ابوطلحہ، حضرت ابوموسی، حضرت ابوہریرہ، حضرت انس ، حضرت عائشہ "إيجاب وضوء
مما مسته النار" کے قائل تھے اور ان حضرات کا استدلال :
توضؤا مما مسته النار اور إنما الوضوء مما مسته النار سے تھا۔
(45)
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دور صحابہ سے ہی فہم
نصوص میں اختلاف کی بنیاد پر مسائل وآراء میں اختلاف کی بنیاد پر مسائل وآراء میں
اختلاف کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا اور پھر فہم نصوص میں اختلاف کی کوئی علت نہیں
تھی کہ اختلاف محدود پیمانے پر ہوتا بلکہ اس کے کئی اسباب تھے جن کی وجہ سے احکام
کے استنباط میں فرق ہونا لازمی امر تھا، اور دور تابعین اور اس کے بعد کے ادوار
میں جب اسلامی سلطنت وسیع ہوئی اور پیش آمدہ مسائل میں غوروفکر کی ضرورت پیش آئی
تو یہ اختلافات علم وفہم اور استنباط کی بنا پر وسیع تر ہوتے گئے عموما فہم نصوص
میں اختلافات کی بنیادیں درج ذیل تھیں :
1. نصوص
کا غیر متعین ہونا
2. نصوص
میں مستعمل الفاظ کا مشترک ہونا
3. نص
میں بیان کردہ حکم کا مطلق یا مقید کے درمیان دائر ہونا
4. نص
میں بیان کرد حکم عام ہے یا خاص اس کا غیر واضح ہونا
5. نص
میں موجود لفظ سے مراد معنی لغوی ہے یا شرعی
6. نص
میں مستعمل لفظ سے حقیقت مراد ہے یا مجاز
7. نص
میں موجود قید، قید اتفاقی ہے یا قید احترازی
8. نص
کے بیان کردہ حکم سے (مخالفت کی صورت میں) حرام مراد ہے یا مکروہ پھر مکروہ تحریمی
یا مکروہ تنزیہی
9. نص
کے بیان کردہ حکم سے (حلت کی شکل میں) وجوب مراد ہے یا سنت یا استحباب
10.اگر
کسی نص میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد وجوب ہے یا استحباب
11.نص
کے کلمہ عام کی تخصیص کی بنیادیں کیا ہیں
12.نص
سے مستنبط علت میں اختلاف اور پھر اس علت میں اختلاف کی بنیاد پر آراء میں اختلاف
13.امر
مطلق میں مکروہ شامل ہوگا یا شامل نہیں ہوگا
14.نص
پر زیادتی نسخ ہے یا نسخ نہیں ہے
15.عام
کی تخصیص پر نسخ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں
16.تعارض
وترجیح کے مسئلہ میں طریقہ کار کا اختلاف
17.محرم
اور مبیح میں تعارض کی صورت میں محرم کو ترجیح دی جائے یا مبیح کو
18.مفہوم
مخالف کا قابل احتجاج ہونا یا نہ ہونا
مثال کے طور پر صرف مفہوم مخالف کے قابل احتجاج ہونے یا نہ
ہونے کے سلسلہ میں ہمارے فقہاء نے کس ژرف نگاہی سے کام لیا ہے اس کی صرف ایک جھلک پیش
کرنے کی ان شاء اللہ آئندہ سطور میں کوشش کرونگا۔
(جاری)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔