Thursday, November 26, 2020

0 comments

نعت

ڈاکٹر محمد صدر الحسن ندوی مدنی، اورنگ آباد

8390989303

نام ان کا جو مرے دل کی زباں تک پہنچے

مشک و عنبر سے جو دھولوں تو دہاں تک پہنچے

مہر و ماہ و مہہ خورشید و فلک سے آگے

شاخ سدرہ سے بڑھے سرّ نہاں تک پہنچے

جن کے رہوارنگہ کے لیے گیتی پایاب

قلب نایاب ہوئے شوق زیان تک پہنچے

زعم میں اسوہء نبوی سے گریزاں ہوکر

ورطہ وہم سے نکلے تو گماں تک پہنچے

خاک روبی کی تمنا میں ہوں پلکیں لے کر

آتش شوق بھڑک جائے تو واں تک پہنچے

خواب میں ان کا ہو دیدار تمنا ہے یہی

لذت دید بڑھے رمز وبیاں تک پہنچے

نشہ عشق ہو قدغن کا سبب کیا معنی

رہر وعشق کا مَرکَبْ ہے جہاں تک پہنچے

دل کے ویرانے کو آباد کیا ہے ایسا

چھوڑے جب روح قفس کو تو جناں تک پہنچے

دردِ دل کس سے کہوں آنکھ ہے پرنم مدنیؔ

بے کلی حد سے بڑھی ہے تو فغاں تک پہنچے

٭      ٭      ٭

 

 


سلام

سلام اے ابر رحمت صاحب الطاف رحمانی

 

سلام اے فخر گیتی، نازش اوصاف یزدانی

 

صداقت اور امانت تری سیرت کا تھا سرمایہ

 

عزائم میں صلابت، فکر روشن نطق ربّانی

 

تلاوت، تزکیہ، تعلیم حکمت مقصد بعثت

 

صَلائے عام سے ترے، ملی فکروں کو تابانی

 

زمانہ کو دیا پیغام وحدت تو نے حکمت سے

 

ترے نسخہ کی ندرت سے بڑھی دشمن کی حیرانی

 

نوائے روز و شب سے دل مُصفّٰی کردیا تو نے

 

ترے نغموں سے گونجی بحر و بر کی بزم امکانی

 

مٹادی قیصر و کسریٰ کی عظمت قلب مومن سے

 

جو فضل حق پہ نازاں ہو اُسے کیا خوفِ سلطانی

 

تری دعوت نے قلعی کھول دی کفر و ضلالت کی

 

ہبل نے، لات نے، عزّیٰ نے آخر ہار ہی مانی

 

لہو اور جسم نے طائف میں کی جب زمزمہ سنجی

 

عطائے خاص سے بخشی گئی معراج جسمانی

 

بڑھی مکہ میں جب ظلم و ستم کی فتنہ سامانی

 

ملی ہجرت بھی، نصرت بھی، زہے توفیق ازرانی

 

مثال روزِ روشن سیرتیں تیرے صحابہ کی

 

نظر کو خیرہ کرتی ہیں ادائیں ان کی نورانی

 

کچل دی اپنی خواہش کو رضائے رب کی خواہش میں

 

اشارہ بھی اگر پایا، جھکادی اپنی پیشانی

 

یقینا بزم ہستی ترے احسانوں سے بوجھل ہے

 

تری آمد تھی وجہ افتخار نوعِ انسانی

 

تمنا ہے سلام و نعت ہی کہتا رہے مدنی

 

عطا ہو دست قدرت سے اگر فطرت کو جولانی

 

 


 

نعت

رفعت خُلق میں خورشید مبیں آپ کی ذات

 

ظلمت وہم میں تنویر یقیں آپ کی ذات

 

تری بعثت سے ملی خاک کو توقیر حرم

 

خاتم بزم دو عالم کا نگیں آپ کی ذات

 

فکر کے گِرد تھے قائم کئی ایک حصار

 

راہ بَر ہوگئی مَشعَل بہ جبیں آپ کی ذات

 

ہر قلم رَو کی زمیں جَور پہ تھی نوحہ کناں

 

بن گئی رحمت و الفت کی زمیں آپ کی ذات

 

دین و دنیا کو بہم کرکے دکھایا تو نے

 

ہوگئی فکر کلیسا کی کمیں آپ کی ذات

 

کس طرح وصف کرے مدنیؔ عاجز کا قلم

 

ہے پرے سرحد افلاک بریں آپ کی ذات

 

 

٭      ٭      ٭