نعت
ڈاکٹر محمد صدر الحسن ندوی مدنی، اورنگ آباد
8390989303
نام ان کا جو مرے دل کی زباں تک پہنچے |
مشک و عنبر سے جو دھولوں تو دہاں تک پہنچے |
مہر و ماہ و مہہ خورشید و فلک سے آگے |
شاخ سدرہ سے بڑھے سرّ نہاں تک پہنچے |
جن کے رہوارنگہ کے لیے گیتی پایاب |
قلب نایاب ہوئے شوق زیان تک پہنچے |
زعم میں اسوہء نبوی سے گریزاں ہوکر |
ورطہ وہم سے نکلے تو گماں تک پہنچے |
خاک روبی کی تمنا میں ہوں پلکیں لے کر |
آتش شوق بھڑک جائے تو واں تک پہنچے |
خواب میں ان کا ہو دیدار تمنا ہے یہی |
لذت دید بڑھے رمز وبیاں تک پہنچے |
نشہ عشق ہو قدغن کا سبب کیا معنی |
رہر وعشق کا مَرکَبْ ہے جہاں تک پہنچے |
دل کے ویرانے کو آباد کیا ہے ایسا |
چھوڑے جب روح قفس کو تو جناں تک پہنچے |
دردِ دل کس سے کہوں آنکھ ہے پرنم مدنیؔ |
بے کلی حد سے بڑھی ہے تو فغاں تک پہنچے |
٭ ٭ ٭
سلام
سلام اے ابر رحمت صاحب الطاف رحمانی |
سلام اے فخر گیتی، نازش اوصاف یزدانی |
صداقت اور امانت تری سیرت کا تھا سرمایہ |
عزائم میں صلابت، فکر روشن نطق ربّانی |
تلاوت، تزکیہ، تعلیم حکمت مقصد بعثت |
صَلائے عام سے ترے، ملی فکروں کو تابانی |
زمانہ کو دیا پیغام وحدت تو نے حکمت سے |
ترے نسخہ کی ندرت سے بڑھی دشمن کی حیرانی |
نوائے روز و شب سے دل مُصفّٰی کردیا تو نے |
ترے نغموں سے گونجی بحر و بر کی بزم امکانی |
مٹادی قیصر و کسریٰ کی عظمت قلب مومن سے |
جو فضل حق پہ نازاں ہو اُسے کیا خوفِ سلطانی |
تری دعوت نے قلعی کھول دی کفر و ضلالت کی |
ہبل نے، لات نے، عزّیٰ نے آخر ہار ہی مانی |
لہو اور جسم نے طائف میں کی جب زمزمہ سنجی |
عطائے خاص سے بخشی گئی معراج جسمانی |
بڑھی مکہ میں جب ظلم و ستم کی فتنہ سامانی |
ملی ہجرت بھی، نصرت بھی، زہے توفیق ازرانی |
مثال روزِ روشن سیرتیں تیرے صحابہ کی |
نظر کو خیرہ کرتی ہیں ادائیں ان کی نورانی |
کچل دی اپنی خواہش کو رضائے رب کی خواہش میں |
اشارہ بھی اگر پایا، جھکادی اپنی پیشانی |
یقینا بزم ہستی ترے احسانوں سے بوجھل ہے |
تری آمد تھی وجہ افتخار نوعِ انسانی |
تمنا ہے سلام و نعت ہی کہتا رہے مدنی |
عطا ہو دست قدرت سے اگر فطرت کو جولانی |
نعت
رفعت خُلق میں خورشید مبیں آپ کی ذات |
ظلمت وہم میں تنویر یقیں آپ کی ذات |
تری بعثت سے ملی خاک کو توقیر حرم |
خاتم بزم دو عالم کا نگیں آپ کی ذات |
فکر کے گِرد تھے قائم کئی ایک حصار |
راہ بَر ہوگئی مَشعَل بہ جبیں آپ کی ذات |
ہر قلم رَو کی زمیں جَور پہ تھی نوحہ کناں |
بن گئی رحمت و الفت کی زمیں آپ کی ذات |
دین و دنیا کو بہم کرکے دکھایا تو نے |
ہوگئی فکر کلیسا کی کمیں آپ کی ذات |
کس طرح وصف کرے مدنیؔ عاجز کا قلم |
ہے پرے سرحد افلاک بریں آپ کی ذات |
٭ ٭ ٭