بسم اللہ الرحمن الرحیم
فقہی اختلاف- اسباب وآداب
مولانا ڈاکٹر محمد
صدرالحسن ندوی مدنی
تمہید:
اقوام وملل کی علمی، فکری فقہی، تاریخی ، تہذیبی
، تمدنی ، لسانی، معاشی اور سیاسی نشیب وفراز کی تاریخ ہمیشہ دو ادوار سے گذری ہے،
ایک تاسیسی دور اور دوسرے تشریحی دور اور ان میں سے ہر دور مختلف اسباب وعوامل کی
بناء پر مخصوص اہمیت اور مزاج وخصوصیات سے اغماض یا لاعلمی کے نتیجے میں ہر دور
میں نوک قلم کی دانسہ ونادانستہ لغزشیں علمی وفکری ژولیدگی کا اہم سبب بنی ہیں۔
تاسیسی دور میں کچھ حقائق
ایسے ہوئے ہیں جن کے خط وخال بہت زیادہ نمایاں نہیں ہوتے، فکر وخیال کے بہت سے
گوشے نورسیدہ غنچہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک شاخ نہال، چشم زدن میں بار آوری کے
مرحلہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ایک زندہ قوم اور باشعور امت کے عمل میں دانش ورانہ سطح
پر فکر وآگاہی کی شمولیت اسے علمی وقار اور فکر ثبات عطا کرتی ہے۔ہر دور کی اپنی
ضروریات ہوتی ہیں اور اس دور کی ضروریات کے مطابق قوانین کی تشریح وتطبیق وقت کی
ایک اہم ضرورت ہوتی ہے اور تاویل وتوجیہ اور تشریح وتطبیق کے مرحلہ میں فکری ونظری
اختلاف ایک فطری امر ہے اور فقہاء کے درمیان اختلاف کی ہی حقیقت ہے اور بس-اور اس
قسم کے اختلافات دور نبوت میں بھی تھے، بعد کی صدیوں میں بھی پیدا ہوئے اورتا
قیامت رہیں گے، یہ اختلاف اختلاف رحمت ہے اختلاف زحمت نہیں ہے اور یہ اختلاف اسلام
کی آفاقیت اور اس کی ابدیت کی دلیل ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی
رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
پیغمبر علیہ السلام کے
سامنے دو مجتہدوں کی اجتہادی رائے ایک قرآنی حکم کی تاویل وتوجیہ میں مختلف ہوجاتی
ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی رائے پر قائم رہنے کی سند خود دربار نبوت
سے عطا ہوتی ہے حالانکہ ظاہر ہے کہ بالکلیہ اختلاف کا مٹانا، یہی اسلام کا صحیح
مقصد ہوتا تو اس وقت جب وحی نازل ہورہی تھی اور علم کی روشنی نبوت کی جس مشکوۃ سے
ضیا باریوں میں مصروف تھیں اس کا پٹ بھی بند نہیں ہوا تھا، فریقین میں سے ہر ایک
پیغمبر علیہ السلام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار تھا مگر باوجود ان
تمام باتوں کے جیسا کہ شاہ صاحب کا خیال ہے دونوں فریق کو چھوڑ دیا گیا اور آنحضرت
صلی اللہ علیہ سلم نے بقول ان کے دونوں تاویلوں کو درست قراردیا اور جس نے جو مطلب
سمجھا تھا اس کو اپنے سمجھے ہوئے مطلب پر چھوڑدیا گیا۔(تدوین حدیث –مولانامناظر
احسن گیلانی70-269)
اختلاف کا مفہوم اور اس
کی قسمیں :
اختلاف کی تعریف کرتے
ہوئے علامہ جرجانی فرماتے ہیں :"منازعة تجري بين المنعارضين لتحقيق حق وابطال باطل"(
2)
حق کے اثبات اور باطل کے
ابطال کے لیے دو فریقوں کے درمیان جو بحث ومباحثہ اور علمی داد وستد ہو اس کا نام
اختلاف ہے۔
علامہ جرجانی کی اس تعریف
کا اطلاق کلیات وجزئیات دونوں طرح کے اختلافات پر ہوتا ہے، اس لیے اختلاف کی حد
بندی کے بغیر اس کی حیثت وماہیئت تک رسائی ممکن نہ ہوگی، قرآن وسنت پر غور کرنے سے
اختلاف کی تین صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں :-
1-اختلاف مذموم
2-اختلاف محمود
3-اختلاف مباح
1- اختلاف مذموم : قرآن
کریم اور سنت نبوی سے ثابت شدہ اصول وکلیات سے اختلاف، اختلاف مذموم کے ضمن میں
آتا ہے اور عموما اس قسم کے اختلافات کے پیچھے تین اسباب کی کارفرمائی ہوتی ہے۔
(الف) اتباع شہوات
(ب) اتباع شبہات
(ج) اتباع رسوم وعادات
قرآن کریم میں گمراہی کے
ان تینوں اسباب کی مذمت کی گئی ہے۔
اتباع شہوات کے سلسلے میں
قرآن میں ارشاد ربانی ہے (3) افرأيت من اتخذ إلهه
هواه- کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا
بنالیا ہے۔
اتباع شبہات کے سلسلے میں
قرآن کریم کا ارشاد ہے :-
هُوَ الَّذِي
أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ
وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ
فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ
تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي
الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا
يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ – (4)
وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں محکم
ہیں یعنی ان کے معنی واضح ہیں وہ کتاب اصل ہیں اور دوسری متشابہ ہیں جن کے معنی
معلوم یامعین نہیں ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ گمراہی پھیلانے کی غرض
اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ
اللہ کے علاوہ ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا اور علم میں گہرائی رکھنے والے کہتے
ہیں کہ ہم اس بات پر یقین لاتے ہیں کہ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور
سمجھانے سے وہی لوگ سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے۔
|
اتباع رسوم وعادات کے
سلسلے میں ارشاد ربانی ہے :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ
وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ
أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (المائدة - 104
)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے
کہ اس طرف آو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو وہ کہتے ہیں کہ جس پر ہم
نے اپنے باپ دادوں کو پایا وہ ہمارے لیے کافی ہے چاہے ان کے باپ دادے کچھ علم نہ
رکھتے ہوں اور راہ نہ جانتے ہوں ، تو بھی ایسا ہی کریں گے۔
مسلمانوں میں جو فرقے
پیدا ہوئے ان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے اپنے عقائد اور مسالک کی تائید
وتوثیق کے لیے ان ہی دلائل کا سہارا لیا اور خود گمراہ ہوئے اور بہت سارے لوگوں کی
گمراہی کا سبب بنے- اسلام میں خوارج ، قدریہ، جبریہ اور معتزلہ جو مستقل مکاتب فکر
کی حیثیت رکھتے تھے اپنے افکار وخیالات کی ترویج واشاعت کے لیے استدلال کے پائے
چوبیں کا سہارا لیتے تھے۔
قرطبہ کے مشہور قاضی محمد
بن عبداللہ بن یحی (ابن عیسی) متوفی 339 ھ ایک بار اندلس کے ایک شہر البیرہ میں
عہد قضاء پر اپنی ملازمت کے زمانے میں ایک بڑے جلوس کے ساتھ ایک سڑک سے گذر رہے
تھے کہ آپ کی نظر ایک نوجوان پر پڑی نو جشہ کی وجہ سے لڑکھڑا رہا تھا، جب اس کو
احساس ہوا کہ قاضی صاحب نے اس کو دیکھ لیا ہے تو اس نے راہ فرار اختیار کرنے کی
کوشش کی لیکن اس کے پیراس کا ساتھ نہ دے سکے، اس لیے ایک دیوار کے سہارے سے کھڑا
ہوگیا اور گردن جھکالی، جب قاضی صاحب اس کے بہت قریب آگئے تو اس نے اپنی گردن
اٹھائی اور یہ اشعار پڑھے:
ألا أيها القاضي الذي عم عدلـــه
فأضحى به بين الأنام فريــــــدا
قرأت كتاب الله تسعين
مـــــرة فلم أر فيه للشراب حـــــــدودا
فإن شئت جلدا لي فدونك
منكبـــا صبورا على ريب الزمان جليــــدا
وإن شئت أن تعفو تكن لك
منـــة تروح بها في العالمين حميـــــدا
وإن كنت تختار الحدود فإن
لـــي لسانا على هجو الزمان حديـــــدا (6)
اس نوجوان نے شراب کی حد سے بچنے کے لیے قرآن پاک کا
سہارا لیا اور کہا کہ سیکڑوں بار قرآن کی تلاوت کے باوجود اسے قرآن میں شراب نوشی
کی حد نہ معلوم ہوسکی، گویا کہ وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب قرآن میں شراب نوشی کی حد
متعین ومقرر نہیں ہے تو آپ مجھے سزا نہیں دے سکتے، اس طرح اس نے سنت نبوی اور
اجماع صحابہ کو شراب وخمر کی حد کے سلسلے میں نظر انداز کردیا-
اختلاف محمود :
وہ اختلاف جو کتاب وسنت
کی بنیاد پر ان لوگوں سے ہو جو کتاب وسنت کے منکر ہوں یا کتاب وسنت پر عمل آوری
میں کوتاہی اور سہل انگاری کے مرتکب ہوں جیسے کافروں، مشرکوں، اہل کتاب، فساق اور
اہل بدعت سے اختلاف ، یہ اختلاف ، محمود اور قابل تعریف ہے۔
یہود ونصاری کے سلسلے میں
قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے :
وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ
الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ
هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ
ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (120)
اور ہرگز راضی نہ ہوں گے
نہ یہ یہود اور نہ نصاری، جب تک کہ تو ان کے دین کا تابع نہ ہوجائے، تو کہدے کہ جو
راہ اللہ بتادے وہی سیدھی راہ ہے اور اگر بالفرض تو اس علم کے بعد جو تجھ کو پہنچا
ان کی خواہشوں کی تابعداری کرے تو کوئی نہیں ہوگا اللہ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا
اور نہ مددگار-
قرآن وسنت اور شریعت کو
بازیچہ اطفال بنانے والےعلماء سوء سے اختلاف ، محمود بھی ہے اور تقاضائے دین
وایمان بھی، کیونکہ ایسے نام نہاد علماء خود بھی راہ راست سے دور رہتے ہیں اور
دوسروں کے لیے بھی گمراہی کا سبب بنتے ہیں، حضور اکرم ؐ کا ارشاد گرامی ہے :
إن الله لا يقبض العلم
انتزاعا من الناس ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالم اتخذ الناس رؤساء
جهالا فافتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا (8)
قرآن پاک میں مشرکوں اور
کافروں کے طرز عمل سے برات کا اظہار کیا گیا ہے جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان
کے مشرکانہ اعمال سے اختلاف عین تقاضائے ایمان ہے- اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ
أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ
هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ
مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ
وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (سورة الأنعام :19)
آپ ان سے پوچھئے کہ سب سے
بڑا گواہ کون ہے آپ کہدیجئے کہ اللہ گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان اور یہ قرآن
مجھ پر اترا ہے تاکہ تم کو اور جس کو یہ پہنچے اس سے خبردار کروں، کیا تم گواہی
دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں، آپ کہدیجئے کہ میں تو گواہی نہ دونگا،
آپ کہدیجئے کہ رب ہے ایک معبود اور میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں اور اعلان برات
کرتا ہوں۔
اختلاف مباح :
اختلاف مباح سے مراد وہ
علمی اختلافات ہیں جو صحابہ کرام ، ائمہ مجتہدین اور فقہاء کے درمیان اجتہاد کے
ذریعے غیر منصوص مسائل کے حکم شرعی معلوم کرنے کے سلسلہ میں وقوع پذیر ہوئے،
کیونکہ علماء اصول کے نزدیک اجتہاد نام ہے غیر منصوص مسائل کے شرعی احکام معلوم
کرنے کا ایسی جستجو اور کوشش کے ذریعہ کہ اس سے زیادہ کوشش وجستجو ممکن نہ ہو-
الاجتهاد في اصطلاح
الاصوليين مخصوص باستقراغ الوسع في طلب الظن بشيء من ا لأحكام الشرعية على وجه يحس
منه النفس العجز عن المزيد فيه(10)
اسی لیے فقہاء کے درمیان
یہ بات مسلمہ اصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ منصوص اور مجمع علیہ مسائل میں اجتہاد
جائز نہیں ہے۔
المتجتهد فيه كل حكم
شرعي ليس فيه دليل قطعي (11)
مجتہد فیہ ہر وہ شرعی حکم
ہے جس کی کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو-
علامہ ابن عابدین اپی
مایہ ناز کتاب میں تحریر فرماتے ہیں :
عدم تسويغ الاجتهاد
لوجود الاجماع أو النص الغير المحتمل للتأويل (12)
اس ہر دور میں اہل علم کے
درمیان مسائل میں دلائل کی بنیاد پر اختلافات رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے اور
یہ اختلاف رحمت ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کے پوتے قاسم بن محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ سلم کے
اصحاب کا اختلاف لوگوں کے لیے باعث رحمت ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے تھے کہ
جتنی خوشی مجھے اختلاف اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے اتنی خوشی
سرخ اونٹوں سے نہیں ہوتی، وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم اختلاف نہ فرماتے تو مجھے خوشی نہ ہوتی کیونکہ اگر وہ اختلاف نہ کرتے تو
رخصت کی گنجائش نہ ہوتی۔(13)
ابونعیم نے کتاب الحلیہ
میں حضرت عبداللہ بن عبدالحکم کے واسطے سے ذکر کیا ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید
نے امام مالک سے عرض کیا کہ میں موطا، خانہ کعبہ پر لٹکانا چاہتا ہوں اور لوگوں کو
حکم دینا چاہتا ہوں کہ اس میں جو کچھ ہے اس پر عمل کریں – اس پر امام مالک نے
فرمایا کہ امیر المومنین ایسا نہ کریں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فروع
میں اختلاف کیا ہے اور وہ پوری مملکت اسلامیہ میں پھیل گئے ہیں وہ سب کے سب صحیح
راہ پر ہیں۔(14)
اس واقعے کو خطیب بغدادی
نے "کتاب الرواۃ" میں اس طرح ذکر کیا ہے :
"اے امیر المومنین
!علماء کا اختلاف اس امت پر اللہ کی رحمت ہے، ہر ایک اس امر کی اتباع کرتا ہے جو
اس کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہوا ہے، سب کی نیت رضائے
الٰہی ہے اور سب ہدایت پر ہیں، خلیفہ ہارون رشید سے پہلے خلیفہ منصور نے بھی ایسا
ہی ارادہ کیا تھا تو امام مالک نے فرمایا کہ جن شہروں میں جو احکام پہنچ گئے ہیں ،
لوگوں کو ان ہی احکام پر عمل کرنے دیں"- (15)
یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے مجتہد کو ہر صورت میں اجر کی بشارت سنائی ہے-
إذا حكم الحاكم فاجتهد
ثم أصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد ثم اخطأ فله أجر (16)
جب حاکم نے اجتہاد کیا
اور صحیح نتیجہ تک پہنچا تو اس کے لیے دگنا اجر ہے اور اگر اس نے اجتہاد کیا اور
اس سے خطا ہوئی تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
اس حدیث میں موجود لفظ "اخطا" سے بعض لوگوں کو
مغالطہ ہوا ہے یہاں "اخطا" سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ حق کو نہ پاسکا اور
باطل اور غلط فیصلہ کردیا بلکہ اس حدیث میں "اخطا" سے مراد یہ ہے کہ
افضل کو نہ پہنچ سکا، یہ خطاء حقیقی خطاء نہیں بلکہ افضلیت کی خطاء ہے کیونکہ اگر
دونوں حق پر نہ ہوتے تو اجر نہ ملتا-
حقیقی خطاء اس وقت ہوتی
جب مجتہد قرآن، حدیث اور اجماع کے ہوتے ہوئے اجتہاد کرتا اور ظاہر ہے کہ ایسا
اجتہاد یقینا باطل اور غیر مقبول ہے اسی لیے اگر نہ نظر غائر دیکھا جائے تو اجتہاد
کی بنیاد پر اختلاف صورۃ تو اختلاف ہے لیکن حقیقتا اختلاف ہے ہی نہیں کیونکہ جہاں
شریعت نے خود سکوت اختیار کیا ہے اور قصدا سکوت اختیار کیا ہے وہاں گویا مجتہدین
کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کردہ اصول کی روشنی میں اجتہاد
کریں اور کسی مسئلہ شرعی کے حکم شرعی تک پہنچنے کے لیے اجتہادی صلاحیتوں کا بھر
پور استعمال کریں۔
فقہاء کے درمیان اختلاف
کا تعلق ()اگر لفظ اختلاف کا اطلاق ناگزیر ہوتو) اختلاف کی تیسری قسم "اختلاف
مباح" سے ہے جس سے ہم سطور ذیل میں تفصیلی بحث کریں گے۔
فقہ اور اس کا دائرہ کار :
قرآن کریم اور حدیث شریف
سے تفقہ فی الدین کی ضرورت واہمیت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔
قرآن میں ارشاد ربانی ہے
:
وَمَا كَانَ
الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ
طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا
إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبه :122)
اور یہ بات مناسب نہیں ہے
کہ تمام ہی مومنین جہاد کے لیے چلے جائیں، تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہر جماعت کے
کچھ لوگ نکلیں تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم کے پاس واپس لوٹیں تو
انھیں اللہ سے ڈرائیں تاکہ وہ برے کاموں سے پرہیز کریں۔
حدیث میں حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
ومن يرد الله به خيرا
يفقه في الدين (18)
جس کے ساتھ اللہ تعالی
خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے-
قرآن پاک اور حدیث شریف
میں جس تفقہ فی الدین کی اہمیت وضرورت اور افضلیت بیان کی گئی ہے مشیت ایزدی کے
تحت ہر دور میں ایسے علماء ، فقہاء اور مجتہدین پیدا ہوتے رہے ، جنھوں نے دین میں
تفقہ پیدا کرکے افراد کائنات کو کائنات کی وسعتوں سے ہم کنار کیا اور ان کی راہ میں
حائل سمندر کو پایاب بناکر حالات وواقعات کے سامنے سپرد انداز ہونے کے بجائے قرآن وسنت کی
روشنی میں ان کے لیے شریعت پر عمل پیرا ہونے کی راہ کو آسان اور بے خطر بنادیا۔
امام ابوبکرمحمد بن احمد
السرخسی فرماتےہیں :
المجتهد قد يخطى وقد
يصيب ولكن يحصل له بالاجتهاد العلم من طريق الظاهر على وجه يطمئن قلبه وإن كان
لايدرك ماهو الحق باجتهاده لا محالة فهو نظير قوله تعالى فان علمتوهى مؤمنات فان
المراد به العلم من حيث الظاهر (19)
مجتہد کبھی صحیح معن تک
پہنچتا ہے اور کبھی اس سے خطا سرزد ہوتی ہے لیکن اجتہاد کے ذریعے مجتہد کو ایسا
علم حاصل ہوتاہے جس کی بنیاد ظاہر پر ہوتی ہے اس طور پر کہ اس علم پر اس کا دل
مطمئن ہوتا ہے اگرچہ اس کو اس بات کا حقیقی علم نہیں ہوتا کہ یقینی طور پر حق کیا
ہے، پس اس کا اجتہاد اللہ تعالی کے اس قول کی نظیر ہے جس میں اللہ تعالی کا ارشاد
ہے کہ اگر آپ کو ان عورتوں کے مومن ہونے کا علم ہوتو اس سے مراد ظاہری علم ہے۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ ؒ
فرماتے ہیں :
المجتهد المخطي له أجر
لأن قصده الحق وطلبه بحسب وسعه وهو لايحكم إلا بدليل (20)
جس مجتہد سے خطا اجتہادی
ہو وہ اجر کا مستحق ہے اس لیے کہ اس کا ارادہ حق تک پہنچنے کے لیے بھر پور کوشش کی
ہے کیونکہ وہ دلیل کی بنیاد پر ہی حکم لگاتا ہے۔
فقہ اپنے لغوی مفہوم کے
لحاظ سے پوری شریعت پر حاوی ہے اس لیے اس کا دائرہ صرف عبادات ومعاملات تک محدود
نہیں رہتا بلکہ عقائد بھی اس کے دائرہ میں آجاتے ہیں اسی لیے امام اعظم ابوحنیفہ ؒ
(80ھ 150 ھ) نے جب اہل سنت والجماعت کے عقیدہ پر اپنی وقیع کتاب مرتب فرمائی تو اس
کا نام الفقہ الاکبر تجویز فرمایا اور اسی عام مفہوم کے اعتبار سے آج کل فقہ
القرآن ، فقہ السنہ، فقہ اللغۃ ، فقہ السیرۃ، فقہ المشکلات اور فقہ الاقلیات کی
اصطلاح عام ہوتی جارہی ہے، لیکن جب علوم وفنون وضع اصطلاحات کے دور سے گذرے تو ہر
علم کی اصطلاحی تعریف کی گئی اسی لیے فقہ کی بھی اصطلاحی تعریف کی گئی تاکہ اس کے
حدود اور خط وخال متعین ہوجائیں۔ (جاری)